چُنانچہ جو کوئی زِندگی سے خُوش ہونا اور اچھّے دِن دیکھنا چاہے وہ زُبان کو بدی سے اور ہونٹوں کو مکر کی بات کہنے سے باز رکھّے۔ بدی سے کنارہ کرے اور نیکی کو عمل میں لائے۔ صُلح کا طالِب ہو اور اُس کی کوشِش میں رہے۔
وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دِل سے سچ بولتا ہے۔ وہ جو اپنی زُبان سے بُہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنے ہمسایہ کی بدنامی نہیں سُنتا۔
پِھر اُس نے کہا جو کُچھ آدمی میں سے نِکلتا ہے وُہی اُس کو ناپاک کرتا ہے۔ کیونکہ اندر سے یعنی آدمی کے دِل سے بُرے خیال نِکلتے ہیں۔ حرام کارِیاں۔ چورِیاں۔ خُون ریزِیاں۔ زِناکارِیاں۔ لالچ۔ بدیاں۔ مکّر۔ شہوَت پرستی۔ بدنظری۔ بدگوئی۔ شیخی۔ بیوُقُوفی۔ یہ سب بُری باتیں اندر سے نِکل کر آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔
ایک دُوسرے سے جُھوٹ نہ بولو کیونکہ تُم نے پُرانی اِنسانِیّت کو اُس کے کاموں سمیت اُتار ڈالا۔ اور نئی اِنسانِیّت کو پہن لِیا ہے جو معرفت حاصِل کرنے کے لِئے اپنے خالِق کی صُورت پر نئی بنتی جاتی ہے۔
تُم اپنے باپ اِبلِیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہِشوں کو پُورا کرنا چاہتے ہو۔ وہ شرُوع ہی سے خُونی ہے اور سچّائی پر قائِم نہیں رہا کیونکہ اُس میں سچّائی ہے نہیں۔ جب وہ جُھوٹ بولتا ہے تو اپنی ہی سی کہتا ہے کیونکہ وہ جُھوٹا ہے بلکہ جُھوٹ کا باپ ہے۔
مگر پطرؔس نے کہا اَے حننیاؔہ! کیوں شَیطان نے تیرے دِل میں یہ بات ڈال دی کہ تُو رُوحُ القُدس سے جُھوٹ بولے اور زمِین کی قِیمت میں سے کُچھ رکھ چھوڑے؟ کیا جب تک وہ تیرے پاس تھی تیری نہ تھی؟ اور جب بیچی گئی تو تیرے اِختیار میں نہ رہی؟ تُو نے کیوں اپنے دِل میں اِس بات کا خیال باندھا؟ تُونے آدمِیوں سے نہیں بلکہ خُدا سے جُھوٹ بولا۔
یعنی یہ سمجھ کر کہ شرِیعت راست بازوں کے لِئے مُقرّر نہیں ہُوئی بلکہ بے شرع اور سرکش لوگوں اور بے دِینوں اور گُنہگاروں اور ناپاکوں اور رِندوں اور ماں باپ کے قاتِلوں اور خُونِیوں۔ اور حرام کاروں اور لَونڈے بازوں اور بردہ فروشوں اور جُھوٹوں اور جُھوٹی قَسم کھانے والوں اور اِن کے سِوا صحِیح تعلِیم کے اَور برخِلاف کام کرنے والوں کے واسطے ہے۔ یہ خُدایِ مُبارک کے جلال کی اُس خُوشخبری کے مُوافِق ہے جو میرے سپُرد ہُوئی۔
اور خُدا تُم پر ہر طرح کا فضل کثرت سے کر سکتا ہے تاکہ تُم کو ہمیشہ ہر چِیز کافی طَور پر مِلا کرے اور ہر نیک کام کے لِئے تُمہارے پاس بُہت کُچھ مَوجُود رہا کرے۔