حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کِیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعِث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لِئے اُس پر سیاست ہُوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شِفا پائیں۔
اَے اِنسان اُس نے تُجھ پر نیکی ظاہِر کر دی ہے۔ خُداوند تُجھ سے اِس کے سِوا کیا چاہتا ہے کہ تُو اِنصاف کرے اور رحم دِلی کو عزِیز رکھّے اور اپنے خُدا کے حضُور فروتنی سے چلے؟
کیونکہ خُدا کا وہ فضل ظاہِر ہُؤا ہے جو سب آدمِیوں کی نجات کا باعِث ہے۔ اور ہمیں تربِیّت دیتا ہے تاکہ بے دینی اور دُنیَوی خواہِشوں کا اِنکار کر کے اِس مَوجُودہ جہان میں پرہیزگاری اور راست بازی اور دِین داری کے ساتھ زِندگی گُذاریں۔
وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دیکھو ایک نُورانی بادل نے اُن پر سایہ کر لِیا اور اُس بادل میں سے آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جِس سے مَیں خُوش ہُوں اِس کی سُنو۔
فانی خُوراک کے لِئے مِحنت نہ کرو بلکہ اُس خُوراک کے لِئے جو ہمیشہ کی زِندگی تک باقی رہتی ہے جِسے اِبنِ آدمؔ تُمہیں دے گا کیونکہ باپ یعنی خُدا نے اُسی پر مُہر کی ہے۔
وُہی آسمان پر اپنے بالاخانے تعمِیر کرتا ہے۔ اُسی نے زمِین پر اپنے گُنبد کی بُنیاد رکھّی ہے۔ وہ سمُندر کے پانی کو بُلا کر رُویِ زمِین پر پَھیلا دیتا ہے۔ اُسی کا نام خُداوند ہے۔
پس ہم کیا کہیں؟ کیا شرِیعت گُناہ ہے؟ ہرگِز نہیں بلکہ بغَیر شرِیعت کے مَیں گُناہ کو نہ پہچانتا مثلاً اگر شرِیعت یہ نہ کہتی کہ تُو لالچ نہ کر تو مَیں لالچ کو نہ جانتا۔